تعلق اپنی جگہ تجھ سے بر قرار بھی ہے
مگر یہ کیا کہ ترے قرب سے فرار بھی ہے

کرید اور زمیں، موسموں کے متلاشی!
یہیں کہیں مری کھوئی ہوئی بہار بھی ہے

یہی نہ ہو تری منزل، ذرا ٹھہر اے دل
وہی مکاں ہے، دیوں کی وہی قطار بھی ہے

یونہی تو روØ+ نہیں توڑتی Ø+صار بدن
ضرور اپنا کوئی بادلوں کے پار بھی ہے

میں پتھروں سے ہی سر کو پٹخ کے لوٹ آیا
چٹان کہتی رہی مجھ میں شاہکار بھی ہے

یہ کیا کہ روک کے بیٹھا ہوا ہوں سیل ہوس
مچان پر بھی ہوں اور سامنے شکار بھی ہے

چھپا ہوا بھی ہوں جینے کی آرزو لے کے
پناہ گاہ مری، شیر کی کچھار بھی ہے